جاوید احمد غامدی، پشتون ثقافت اور طالبان – از خان زمان کاکڑ

ghamidi

Related post: Javed Ghamidi says that Taliban’s beheading is tribal Pashtun cluture

جاويد احمد غامدی کا تعلق مذہب کے اس معذرت خوا ه طبقے سے ہے جو جديد دنيا کے اکثر مقبول رجحانات کو يا تو اسلام سے ماخوذ سمجهتا ہے اور يا قرانی متون کو کهينچ تان کر اس کی مطابقت جديد دنيا کے کچھ مقبول روئيوں، تحريکوں اور نظريوں سے بنانے کی سعی لاحاصل کرتا ہے. غامدی صاحب کا اس کسب کے ساتھ تعلق جماعتِ اسلامی کی رکنيت حاصل کرکے ہی پيدا ہوا تها . اب اپنے آپ کو جماعتِ اسلامی سے بڑھ کرکے کچھ خاص قسم کا صحيح مسلمان سمجهتےہيں ميرے لئے ان کی حثيت اب بهی جماعتِ اسلامی کے کسی عام مُلا سے زياده کچھ نہيں. ليکن مذہبی معذرت خواہوں کے نزديک غامدی صاحب ملاؤں کے تهوڑے معتدل اور عالم طبقے سے تعلق رکهتےہيں اور ان کی کتابيں اور ويڈيوز بهی يہی ماڈرن مذہبی معذرت خواه لوگ خريدتے ہيں. ماڈرن مسلمان جب غامدی صاحب کی کوئی زياده برخلافِ توقع بات سن ليتے ہيں تو مايوسی کے انداز ميں ان کا ردِعمل يہ ہوتا ہے آخر غامدی صاحب بهی

مذہب ميں’ معتدل’ کا مطلب يہ ہے کہ جب کوئی دہشت گردی کی زياده جذباتی حمايت نہيں کرتا ہے يا کم سے کم انصار عباسی يا اوريا مقبول جان جيسا نہيں ہوتا. ‘معتدل’ بذات خود ايک معذرت خواہانہ اصطلاح ہے اور شکست خورده ذہن کے لوگ اس اصطلاح کو بڑے مثبت انسانی وصف کے طور پر استعمال کرتے ہيں

ايک تو ہمارے لوگ ان مُلاؤں سے زياده تنگ آچکے ہيں جو ہر گلی کوچے ميں نفرت، دشمنی، قتل و قتال اور خونريزی کی تبليغ برملا کرتے نظر آتے ہيں اور دوسرا يہ کہ سماجی علوم ميں ان کا مطالعہ ايک ادھ اردو کتاب سے بڑھ کر کچھ نہيں ہوتا اسی وجہ سے وه غامدی برانڈ اسلام کا جلد ہی شيدائی بن جاتے ہيں. غامدی صاحب کی دانشوری اور عمران خان کی سياست صرف ان لوگوں کو اپيل کرسکتی ہے جو اسلام کو ملائيت اور جديديت کے اميزے ميں فالو کرنا چاہتے ہيں. بنيادی معلومات اور تنقيدی شعور کے فقدان ميں جب حسن نثار جيسے لوگ دانشور بن سکتے ہيں توغامدی صاحب جيسے لوگوں کيلئے مذہبی سکالر بننا کوئی مشکل کام نہيں. موجوده دنيا ميں غامدی برانڈ اسلام کی بڑی قيمت بهی ہے. پاکستان کے ايک سابق بيوروکريٹ ڈاکٹر اکبر ايس احمد اسی برانڈ اسلام کی بدولت مغرب ميں ايک بڑی پُر مسرت زندگی گزاررہے ہيں. غامدی اور اکبر ايس احمد دونوں اسلام ميں سائنس، جديديت، جمہوريت، خواتين کے حقوق، قوم پرستی اور روشن خيالی ثابت کرنے کيلئے تاويلات گهڑنے ميں اب اتنے ماہر بن چکے ہيں کہ بيرونی دنيا ميں بهی دونوں کی بڑی خاصی پزيرائی ديکهنے کو ملتی ہے. اکبر ايس احمد کی طرح غامدی بهی طالبان کو پشتون کلچر کی پيداوار سمجهتے ہيں

سماء ٹی وی کے ساتھ ايک حاليہ انٹرويو ميں وزيرستان ميں ۲۳ پوليس اہلکاروں کے کلے گاٹنے کے واقعے اور طالبان کی شريعت پر تبصره کرتے ہوئے غامدی صاحب نے کہا ہے کہ قبائلی تمدن ميں گلا کاٹنا ايک معمولی بات ہے. قبائلی تمدن ميں انتقام کو بڑی اہميت دی جاتی ہے قبائلی تمدن ميں لوگ چاہتے ہيں کہ ان کی دہشت دوسروں پہ طاری ہوجائے. قيام پاکستان کے بعد قبائلی علاقے کو جديد رياست کا حصہ نہ بننے سے يہ مسئلہ پيدا ہوا ہے

http://www.samaa.tv/programdetail.aspx?v=10006&ID=114&dt=2%2F21%2F2014

http://www.ghamidiji.com/javedahmadghamidi/what-taliban-want-from-pakistan.html

غامدی صاحب کی نظر ميں جو کام ريڈ انڈين اورقديم آسٹریلین قبائل کے ساتھ ہوا وہی فاٹا کے ساتھ بهی اگر ہوتا تو يہ موجوده دہشت گردی ديکهنے کو نہ ملتی . قبائلی علا‎قوں ميں مذہب کی ايک خاص تعبير ہوتی ہے. وہاں پہ سر کاٹنا، لوگوں کو ذبح کرنا اور سنگسار کرنا ايک بہت عام سی بات ہوتی ہے. غامدی صاحب نے خاتون اينکرپرسن کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ہم اور آپ کو اگر ايک مرغی ذبح کرنی ہو تو ايک تردد محسوس کريں گے اس لئے کہ ہماری پرورش اور تربيت مختلف ہوئی ہے. ليکن ايک سات سالہ قبائلی بچہ بعض اوقات ہم اور آپ کے سامنے ايک آدمی کو ذبح کرينگے ان کو کچھ فرق نہيں پڑے گا، وہاں يہ ايک معمول کی بات ہے، کلچر کا حصہ ہے. غامدی صاحب کے نزديک طالبان باغی ہيں انہوں نے رياست کو چيلنج کيا ہے. ان کے ساتھ معاملہ کرنے کيلئے آپ کو انہيں سمجهنا پڑے گا. افغانستان ميں اگر آپ لوگوں کو لاہور اور کراچی يا لندن اور نيويارک کے لوگ سمجھ کرکےمعاملہ کرينگے تو آپ سمجھ ہی نہيں سکتے کہ آپ کيا کرتے ہيں.

ميں غامدی صاحب کے اس انٹرويو ميں موجود چند تاويلات، مبالغوں اور گمرائيوں کا تجزيہ کرنا چاہوں گا.

غامدی صاحب يہ ثابت کرنا چاہتے ہيں کہ اسلام تو امن ، آشتی اور انسان دوستی کا مذہب ہے. طالبان جو کچھ کرتے ہيں وه ان کے قبائلی تمدن کا حصہ ہے.

وه قبائلی تمدن کی اس يورپی معتصابانہ تشريح پہ يقين رکهتے ہيں جس کے مطابق ٹرائبل کا مطلب تہذيب سے دوری، پسماندگی، قتل و قتال اور بربريت تها. غامدی صاحب تاريخی اور سياسی زاوئيوں پہ غور کرنے کی بجائے قبائلی علاقوں کا ايک معاشرتی اور ثقافتی تجزيہ اس عام معتصبانہ اورينٹلسٹ اور يوروسينٹرک تناظر سے کرنا چاہتے ہيں جونوآبادياتی دور ميں تو بڑا مقبول تها ليکن اب يورپ ميں بهی اس کی نہ صرف کوئی افاديت باقی نہيں رہی ہے بلکہ وہاں ہی پہ اس کے خلاف بڑے موثر تنقيدی تناظربهی ابهر کر سامنے آئے ہيں.

غامدی صاحب ريڈ انڈين اور اسٹرالين قبائل پر بيرونی حملوں کی نہ صرف تعريف کرتے ہيں بلکہ اس کی پيروی کرنے کی تلقين بهی کرتے ہيں.

وه قبائلی کلچر کی تشريح کو جنرلائز کرکے يہ سمجهتے ہيں کہ جہاں پہ بهی کوئی قبائلی معاشره ہوگا وہاں پہ سر کاٹے جائينگے

غامدی صاحب کی نظر ميں قبائلی علاقوں ميں جاری (دیوبندی و سلفی) دہشت گردی ميں رياست کا اس سے بڑھ کر کوئی کردار نہيں کہ اس نے کيوں ابهی تک ان علاقوں کو اپنے باقاعده نظام کا حصہ نہيں بنايا. وه يہ نہيں بتاتے کہ کيا وجہ ہے کہ رياست ابهی تک قبائلی علاقوں کو اپنے باقاعده نظام کا حصہ بنانے سے انکار کرتی ہے؟

غامدی صاحب نے فاٹا ميں ہزاروں کی تعداد ميں موجود ازبک، تاجک، چيچن، عرب اور پنجابی دیوبندی و سلفی دہشت گردوں کا ذکر اس وجہ سے نہيں کيا ہے کہ اس سے پهر ان کے قبائلی تمدن والے مفروضے کو نقصان پہنچتا ہے

غامدی صاحب پشتون کلچر کے بارے ميں کچھ نہيں جانتے. ميں جاننا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ڈيورينڈ لائن کی دونوں طرف موجود قبائلی علاقوں کے کتنے دورے کيے ہيں اور قبائلی تمدن کے حوالے سے جو تاويلات انہوں نے پيش کيے ہيں ان کا کوئی ماخذ ہے بهی؟

غامدی صاحب سر کاٹنا قبائلی تمدن کا ايک حصہ اور ايک عام سی بات سمجهتے ہيں. يہ ايک انتہائی گمراکن بات ہے. ہم جو کہ خود پشتون قبائلی معاشرے کے رہنے والے ہيں بچپن ميں والدين نے بتايا تها کہ سر کو گالی نہيں دينا اس لئے کہ سر کوالله تعالی خود بناتا ہے اور باقی بدن کو فرشتے. ميں نے اپنی زندگی ميں کبهی پورے پشتون وطن ميں طالبان کی دہشت گردی کے واقعات کے علاوه کسی ايسے واقعے کا نہيں سنا ہے جس ميں انسانوں کے سر کاٹے گئے ہوں

سوات جو کہ پاکستان سے پہلے اپنی رياست کا ايک بهرپور تجربہ رکهتا ہے اور اب پاکستان کے باقاعده رياستی نظام کا حصہ بهی ہے، خواندگی کی شرح بهی کافی زياده ہے. غامدی صاحب قبائلی علاقوں اور سوات کے طالبان ميں کتنا فرق محسوس کرتے ہيں؟ طالبان شاہی ميں سر کاٹنے کے واقعات بهی دونوں جگہوں پہ ہوئے ہيں.

غامدی صاحب قبائلی علاقوں ميں انتقام کو کچھ اس طرح کا معاملہ سمجهتے ہيں جس ميں لوگ ايک دوسرے کو قتل کرنے کے بغير کوئی کام ہی نہيں جانتے ہوں گے. غامدی يہ نہيں جانتے کہ وہاں پہ انتقام کا کيا خدوخال اور کيا طريقائے کار ہيں؟ وه اگر غيررياستی معاشروں کے سياسی نظاموں کے بارے ميں کچھ جانتے يا کم از کم افريقی معاشروں کے بارے ميں کچھ پڑهتے تو ان کو انتقام کے معاملے ميں اتنی منفيت کبهی نظر نہيں آتی. انتقام سے بچنے کيلئے پشتون کلچر ميں کشيدگی کو ختم کرنے يا مسائل کو حل کرنے کا جو ميکانيزم ہے غامدی اس کے بار ے ميں کچھ نہيں جانتے. غامدی جوکہ دیوبندی طالبان کو پشتون قبائلی لوگ سمجهتے ہيں ہميں يہ نہيں بتاتے کہ ان طالبان اور رياست کی دشمنی کيا ہے؟ اس رياست نے تو طالبان کا کوئی ايسا نقصان نہيں کيا جس کا طالبان انتقام ليتے ہيں اور ايف سی کے اہلکاروں کو ذبح کرتے ہيں. طالبان قيادت کو تو ڈرون حملوں ميں مار پڑی ہے پاکستانی فوج نے تو ان کو کوئی نقصان نہيں پہنچايا ہے. اس کے علاوه، يہ جو شہروں ميں خودکش حملے اور بم دهماکے ہورہے ہيں يہ کس سے انتقام ليا جارہا ہے؟

غامدی صاحب نے اپنے اس انٹرويو ميں پنجابی کلچر کی بڑی خوب تعريف کی ہے کہ اگران کو ايک مرغی بهی ذبح کرنی ہو تو وه ہچکچائينگے. ليکن يہ جو غيرمسلموں کی بستيوں کی بستياں اجاڑی جاتی ہيں اس کی ہم کيا تشريح کرينگے؟ اقليتوں پہ لوگ کہاں ايک ہجوم کی شکل ميں حملہ آور ہوتے ہيں؟ پنجابی دیوبندی طالبان کون ہيں اور کيسے پيدا ہوئے؟

غامدی صاحب نے اس خطے ميں دہشت گردی کی تمام تاريخ، بين الاقوامی، مذہبی، سياسی اور رياستی وجوہات کو نظر انداز کرکے قبائلی تمدن کو اس لئے ذمہ دار ٹهہرايا ہے کہ اسی ايک طريقے سے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے. جو کچھ انہوں کہا ہے ايک عرصے سے پنجابی حکمران خصوصاً رانا ثناء الله دیوبندی بهی يہی کچھ فرما رہے ہيں. حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کميٹيوں کو بهی شايد غامدی صاحب نے ہی يہ مشوره ديا ہو کہ طالبان کی شريعت کو “شورش زده علاقے” تک محدود رکها جائے.

غامدی صاحب اگر عمران خان کی پارٹی کے ترجمان ہوتے تو ميں ان پہ ہرگز کچھ نہيں لکهتا. آج ان چند ايک باتوں کو عرض کرنے کی صرف ايک وجہ تهی کہ کچھ ان دوستوں سے ان کا ايک مختصر تعارف کراسکوں جو ان کی کتابيں پڑھ اور ويڈيوز ديکھ کر باقی ملاؤں پر لعنت بهيجتے ہيں

ماخوذ مع معمولی ترمیم از انکار

gh

Comments

comments

Latest Comments
  1. Monitor
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. Monitor
    -
  4. mub
    -